جمہوریہ چیک اور پولینڈ کی یوکرین کو اضافی جنگی سازوسامان کی فراہمی
ایک ایسے وقت میں جبکہ یوکرین اپنے مشرقی حصے میں روسی جارحیت کے خلاف جدوجہد کر رہا ہے، جمہوریہ چیک اور پولینڈ یوکرین کو اضافی ہتھیار بھیج رہے ہیں۔
ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کی رپورٹ کے مطابق چیک وزیر دفاع جانا سرنوچووا نے کہا کہ ان کا ملک یوکرین کو 30 ملین ڈالر تک کے اضافی ہتھیار بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ امداد مستحکم ہو۔
جمہوریہ چیک پہلے ہی روسی حملے کے آغاز کے بعد سے یوکرین کو 150 ملین ڈالر سے زیادہ کی فوجی امداد فراہم کر چکا ہے۔
پولینڈ نے کہا کہ وہ یوکرین کو 18 خود سے چلنے والے ہووٹزر فراہم کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ کے بعد پولینڈ یوکرین کو فوجی ساز و سامان فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔
فرانس یوکرین کی امداد میں اضافہ کر سکتا ہے، فرانسیسی وزیرِ خارجہ
یو کرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی پیر کے روز یورپی کونسل سے خطاب کرنے والے ہیں۔ اپنے خطاب میں وہ یو کرین کے لیے مزید امداد پر زور دیں گے اور روس پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ اپنے حملے بند کر دے۔
یو رپی کونسل کے صدر چارلس مائیکل نے اس دو روزہ اجلاس سے پہلے ایک خط میں کہا ہے،" یو کرین روس کی جارحیت اور قتل و غارت کے مقابلے میں انتہائی جرآت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔"
اسی دوران فرانس کی نئی وزیرِ خارجہ کیتھرین کولونا نے پیر کو کیف کے دورے کے موقعے پر کہا ہے کہ فرانس روس کے خلاف یو کرین کے لیے فوجی امداد میں اضافے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے یو کرین کے اپنے ہم منصب دیمترو کیلوبا کے ساتھ ایک نیوز کانفرنس میں کہا، " فرانس روس کے ساتھ جنگ میں شامل نہیں ہے مگر یوکرین کے لیے ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھے گا۔”
کولونا نے فرانس کے صدر ایمینوئیل میخواں کا بھی دفاع کیا۔ یو کرین میں ان پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ روسی صدر پوٹن سے فون پر بہت بات کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا صدر کی گفتگو براہِ راست اورصاف صاف ہوتی ہے۔
کولونا نے مزید کہا کہ اگرچہ یہ کوئی مذاکرات نہیں ہوتے مگر جیسا کہ صدر زیلنسکی کہہ چکے ہیں، مذاکرات آخرِ کار ضرور ہوں گے، " اور اگر یو کرین چاہے تو ہم اس میں معاونت کر سکتے ہیں۔"
یو کرین کے شہر سیویوروڈونیسک پر روسی قبضے کا خطرہ
یو کرین کے خلاف جنگ میں روسی حملے سے تباہ حال یو کرین کا مشرقی شہر سیویوروڈونیسک پیر کے روز بظاہر ماریوپول کی طرح روسی قبضے میں جاتا نظر آرہا ہے۔شہر کے مئیر نے خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ روسی فوجی شہر میں داخل ہو گئے ہیں، بجلی اور رابطے منقطع کر دیے گئے ہیں اور شہر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
ماسکو یو کرینی علاقے ڈوباس کے صنعتی علاقے پر مکمل قبضہ کرنا چاہتا ہے اور سیویوروڈونیسک اس میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔میجر اولکسیندر ستریوک نے اے پی کو ایک ٹیلی فون انٹرویو میں بتایا کہ ایسے میں جب یو کرین کی دفاعی فورسز روسیوں کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہیں، شہر میں شدید لڑائی ہو رہی ہے اور ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
روس پر یورپی پابندیاں نظر انداز، سربیا کا پوٹن سے گیس کا معاہدہ
ایسے میں جب یو کرین میں شدید جنگ جاری ہے، سربیا کے صدر نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے اتوار کو ٹیلیفون پر روسی صدر پوٹن کے ساتھ گفتگو میں قدرتی گیس کا ایک انتہائی فائدہ مند معاہدہ کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔
سربیا کے صدر ایلکسینڈر ووچچ یوکرین پر روسی حملے کی پوری طرح مذمت سے انکار کر چکے ہیں اور ان کا ملک روس پر عائد مغرب کی تعزیروں میں بھی شامل نہیں ہے۔
ووچچ کا دعویٰ ہے کہ وہ سربیا کو یورپی یونین میں شامل کریں گے مگر حالیہ برسوں میں وہ روس سے جو طویل عرصے سے سربیا کا اتحادی ہے، اپنے تعلقات بہتر بناتے رہے ہیں۔
روس کے ساتھ گیس کے اس معاہدے پر جون کے شروع میں دستخط ہونے کا امکان ہے جب روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف بلغراد کا دورہ کریں گے۔ 24 فروری کو یوکرین پر روسی حملے کے بعد کسی روسی عہدیدار کا کسی یورپی ملک کا یہ غیر معمولی دورہ ہوگا۔
ووچچ نے صدر پوٹن سے کہا ہے کہ ان کی خواہش ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو امن قائم ہوجائے۔
سربیا روسی گیس پر مکمل انحصار کرتا ہے اور اس کی توانائی کی تمام بڑی کمپنیاں زیادہ تر روسیوں کی ملکیت ہیں۔