جنگ میں 50 سے زائد ایتھلیٹس کی اموات
یوکرین کے ذرائع ابلاغ کے مطابق روس کی جارحیت میں اب تک 50 سے زائد ایتھلیٹس ہلاک ہو چکے ہیں۔
ویب سائٹ ‘یوکرین فورم’ نے یوکرینی وزارت برائے نوجوانان و کھیل کے حوالے رپورٹ کیا ہے کہ 50 سے زائد ایتھلیٹس اپنی سر زمین کی حفاظت کرتے ہوئے روس کی جارحیت کا نشانہ بنے ہیں۔
وزارت کے مطابق یہ تمام ایتھلیٹس مختلف کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لے چکے تھے۔ اب بھی کئی ایسے کھلاڑی ہیں جو کہ یوکرین کی مسلح افواج کے ساتھ ملک کے دفاع کی حفاظت میں فعال ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ملک کی حفاظت کرنے والے ان افراد کے شکر گزار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق روس کے حملے سے ایتھلیٹس کی عالمی مقابلوں، یورپی چیمپئن شپ اور اولمپکس کے لیے تیاریاں ختم ہو گئی ہیں۔
روس یوکرین کو ناقابلِ بیان نقصان پہنچا رہا ہے: امریکی تھنک ٹینک
امریکہ کے تھنک ٹینک ‘انسٹیٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار’ کا کہنا ہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن یوکرین کے شہریوں کو ناقابلِ بیان نقصان پہنچا رہے ہیں۔
تھنک ٹینک کی حالیہ رپورٹ میں روس کے یوکرین پر حملے کو ایک مایوس کن اور خون ریز حملے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
اس جارحیت میں روس کو اپنی موجودہ حکمتِ عملی کی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے جو کہ اس حقیقی فائدے کے مقابلے میں بہت کم ہے جس کی روس امید کر سکتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یوکرینی افواج کو ڈونٹیسک میں بھاری جانی نقصان پہنچا اور جنگ نے شہریوں اور بنیادی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچایا۔
’روس کی دہشت یورپ کے خلاف ہتھیار بن چکی ہے‘
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ ہفتے پیر اور منگل کو یورپین کونسل سے خطاب کریں گے۔
زیلنسکی کا کہنا تھا کہ وہ خاص طور پر اس دہشت کے بارے میں بات کریں گے کو جو کہ روس کا یورپ کے خلاف اکلوتا ہتھیار بن چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس خوف کے بارے میں بات کریں گے جو کہ صرف یوکرین کی سر زمین پر نہیں ہے بلکہ یورپ کی توانائی مارکیٹ میں بھی موجود ہے۔
زیلنسکی کے بقول وہ خوف جو عالمی سطح پر فوڈ مارکیٹ میں ہے اور اس کے علاوہ مستقبل میں جو ممکنہ خوف ہو سکتے ہیں، اس بارے میں بھی وہ بات کریں گے۔
یوکرین جنگ میں سینکڑوں بچے ہلاک ہو چکے ہیں
روس کے یوکرین پرحملے کے بعد اب تک 682 سے زیادہ بچے زخمی یا ہلاک ہو چکے ہیں۔
یوکرین کے پراسیکیوٹر جنرل کے دفتر نے ٹیلی گرام پر بتایا کہ اب تک کی اطلاعات کے طابق 242 ہلاک اور 440 زخمی ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اعداد و شمار حتمی نہیں ہیں کیونکہ جاری لڑائی کے مقامات پر اطلاعات کی تصدیق کرنا مشکل تھا۔