اقوام متحدہ کا ماریوپول شہر کے اسٹیل پلانٹ سے محصور یوکرینی شہریوں کو نکالنے کا آپریشن
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ وہ یوکرین کے جنگ سے تباہ حال جنوبی بندرگاہ کے شہر ماریوپول میں روسی افواج کی طرف سے بلاک کیے گئے اسٹیل پلانٹ سے ایک ہزار یوکرینی شہریوں کو محفوظ راستے سے نکالنے کا آپریشن کر رہا ہے۔
اس آپریشن کو روسی اور یوکرینی حکام کے ساتھ ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کے تعاون سے، ہفتے کے روز شروع کیا گیا۔
یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ تقریباً 100 افراد کا پہلا گروپ پہلے ہی زیر کنٹرول علاقے زیپوریژیا کی طرف بڑھ رہا ہے اور یوکرینی حکام کل اس سے وہاں ملیں گے۔
حکام کا خیال ہے کہ مزید 2,000 یوکرینی جنگجو اسٹیل پلانٹ میں موجود ہیں۔ وہ سرنگوں کے بڑے کمپلیکس کے بھولبلییوں کے راستوں میں موجود ہیں اور وہاں روسی افواج کا گھیراوہے۔
خیال رہے کہ تقریباً 100,000 دیگر یوکرینی شہری اب بھی بحیرہ ازوف کے شمالی ساحل پر اس شہر میں موجود ہو سکتے ہیں جو دو ماہ کی بمباری مہم کے بعد روس کے زیر کنٹرول ہے۔رپورٹس کے مطابق شہر کو بمباری میں ملیا میٹ کر دیا گیا ہے۔
ابتدائی طور پر، روسی وزارت دفاع نے کہا کہ 46 افراد کو نکالا گیا، جن میں سے 25 کا ایک گروپ اور دوسرے کل 21 تھے، جب کہ اسٹیل ورکس کا دفاع کرنے والی یوکرائنی یونٹ ازوف رجمنٹ نے کہا کہ نکالے جانے والوں میں 20 خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
پیلوسی کا کیف کا غیر اعلانیہ دورہ، صدر زیلنسکی سے ملاقات میں حمایت کا اعادہ
امریکی ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی اور چھ دیگر ڈیموکریٹک قانون سازوں نے ہفتے کے روز یوکرین کے دارالحکومت کیف کا غیر اعلانیہ دورہ کیا اور صدر و لودومیر زیلنسکی سے تین گھنٹے کی ملاقات کی۔
پیلوسی روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے جنگ زدہ ملک کا دورہ کرنے والی اعلیٰ ترین امریکی اہلکارہیں۔اس سے قبل امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن اور وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن بھی یوکرین کا دورہ کر چکے ہیں۔
روسی حملے کے بعد اب تک جنگ میں دونوں طرف سے ہزاروں جنگجو اور یوکرین کے ہزاروں شہری مارے جا چکے ہیں۔
کیف کے دورے کے بعد پولینڈ پہنچ کر اسپیکر پیلوسی نے کہا کہ انہوں نے زیلنسکی سے وعدہ کیا تھا، "ہم اس جنگ کے جیتنے تک آپ کے ساتھ ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ کانگریس کا وفد ان کے لیے روسی حملے کے خلاف لڑنے کے لیے "امریکی عوام کی طرف سے ان کی قیادت کے لیے تعریف کا پیغام لے کر آیا ہے۔
اسپیکر نے امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے گزشتہ ہفتے کانگریس کو بھیجی گئی 33 بلین ڈالر کی نئی یوکرین امداد کی درخواست کو ایوان سے جلد منظور کرنے کا وعدہ بھی کیا ۔
گیس روبل میں نہ خریدنے پر روسی دھمکی، یوپری یونین کے تونائی وزرا کا ہنگامی اجلاس
یوروپی یونین کے ممالک کے توانائی کے وزراء نے کہا کہ وہ پیر کو ہنگامی بات چیت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔.
یورپی یونیں ماسکو کے اس مطالبے پر متحد جواب دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ یورپی خریدار روسی گیس کی روبل میں ادائیگی کریں یا ان کی سپلائی منقطع ہو جائے گی۔
خیال رہے کہ روس کو یوکرین پر حملے کے بعد امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے عائد پرکئی اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے۔ جرمن نے حال ہی میں کہا ہے کہ وہ روسی گیس پر انحصار کم سے کم کردے گا۔
رپورٹس کے مطابق روس نے مطالبہ کیا ہے کہ گیس کے غیر ملکی خریدار نجی روسی بینک کے اکاؤنٹ میں یورو یا ڈالر جمع کرایں، جو اس کے بعد کرنسی کو روبل میں تبدیل کر دے گا۔
روس کی آن لائن غلط اطلاعات کی مہم، غیر ملکی سربراہان کو ہدف بنایا جارہا ہے
برطانیہ کے ایک تحقیقی ادارے کے مطابق، روسی 'سائبر سپاہی' غیر ملکی سربراہان کو ہدف بنارہے ہیں جس میں سماجی میڈیا کے پلیٹ فارمز کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور یوکرین کے خلاف جارحیت کو جائز قراردیتے ہوئے بڑے پیمانے کی غلط اطلاعات کی جارہی ہیں۔
برطانیہ کی وزارت خارجہ نے اتوار کے روز بتایا کہ سینٹ پیٹرزبرگ کے ایک کارخانے سے کام کرنے والے یہ تنخواہ دار کارندے ٹیلی گرام میسیجنگ ایپ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے حامی بھرتی کرنے اور ان کے ساتھ رابطہ استوار کرنے کے لیے کوشاں ہیں، جو کریملن کے ناقدین کی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو جعلی خبروں سے بھر دیتے ہیں، جن میں اپنے انداز سے روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور یوکرین کی لڑائی کا ذکر کیا جاتا ہے۔
وزارت خارجہ نے بتایا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی نشاندہی سے بچنے کے لیے اس نام نہاد 'ٹرول فیکٹری' نے نئی تکنیک وضع کی ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ اپنا مواد تخلیق کرنے کے بجائے، کریملن کی حمایت میں یہ بیانات حقیقی صارفین کے اکاؤنٹس سے جاری کرائے جاتے ہیں۔ اس قسم کی کارروائی کے نمایاں نشانات آٹھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود ہیں، جن میں ٹیلی گرام، ٹوئٹر، فیس بک اور ٹک ٹاک شامل ہیں۔
برطانوی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کارروائی میں سیاست دان اور بڑے پیمانے پر لوگوں کو ہدف بنایا جاتا ہے جن میں برطانیہ، ساؤتھ افریقہ اور بھارت شامل ہیں ۔ عام خیال یہ ہے کہ اس سائبر کارروائی کے تانے بانے یوگنی پریگوزن سے جا ملتے ہیں، جن پر امریکہ اور برطانیہ دونوں نے تعزیرات لگا رکھی ہیں، چونکہ وہ کریملن کی حمایت میں انٹرنیٹ کی ایسی کارروائیوں کی مالی حمایت کرتے آئے ہیں۔
برطانیہ کی وزیر خارجہ، لز ٹروس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ''ہم کریملن اور اس کے جعلی ' ٹرول فارمز 'کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ آن لائن اسپیسز کا استعمال کرتے ہوئے پوٹن کی ناجائز لڑائی کے بارے میں دروغ گوئی کرتے پھریں''۔