یوکرین میں روسی قید کے دوران آذربائیجانی طالب علم کوروزانہ تشدد کا نشانہ بنایاگیا
یوکرین کے شہر ماریوپول کے قریب روسی افواج کے قید میں رہنے والے ایک 20 سالہ آذربائیجانی یونیورسٹی کے طالب علم نے بتایا ہے کہ گزشتہ ماہ اسیری کے دوران تقریباً روزانہ اسکو مارا پیٹا جاتا تھا۔
بیس سالہ حسین عبدلائیف روسی حملے کے وقت ماریوپول اسٹیٹ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ آذربائیجان کو بتایا کہ انہیں 17 مارچ سے 12 اپریل تک روسی فوجی اہلکاروں نے ماریوپول کے مغرب میں ایک فوجی چوکی سے اغوا کرنے کے بعد حراست میں رکھا تھا۔
طالب علم نے بتایا کہ روسی فوجیوں نے میرے ہاتھ باندھے اور میری جیکٹ سے میرا سر ڈھانپ دیا تاکہ میں کچھ نہ دیکھ سکوں۔ پھر وہ مجھے ٹرک میں ڈال کر جیل لے گئے۔ وہ روسی بولتے تھے۔"
عبداللائف نے کہا کہ قید کے دوران انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور یوکرین کا فوجی ہونے کا الزام لگایا گیا۔
"انہوں نے بجلی کے جھٹکے (لاٹھی) کا استعمال کیا، اور پھر مجھے مارا پیٹا گیا۔ وہ روسی تھے، اور ان میں آذربائیجانی اور چیچن بھی تھے۔
"پہلے انہوں نے بجلی کا جھٹکا دیا، پھر لکڑی کے تختے سے مجھے مارا اور پاؤں روند دیا۔ مجھے تقریباً ہر روز مارا پیٹا جاتا تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ کیا میں طالب علم نہیں بلکہ یوکرین کا فوجی ہوں۔"
بائیڈن اتحادیوں کے ساتھ یوکرین کی حمایت، روس کو جوابدہ ٹھہرانے پر بات چیت کریں گے
امریکہ کے صدر جو بائیڈن منگل کو اتحادیوں کے ساتھ ایک ویڈیو کال کر رہے ہیں جس پر وائٹ ہاؤس کے مطابق "یوکرین کے لیے ہماری مسلسل حمایت اور روس کو جوابدہ ٹھہرانے کی کوششوں" پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا بائیڈن انتظامیہ روس کے خلاف مزید پابندیوں پر غور کر رہی ہے، وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے کہا کہ امریکہ پابندیاں مزید سخت کرنے کے لیے اقدامات کرتا رہے گا۔"
روسی فوج کی ڈونیٹسک اور لوہانسک کے علاقوں پر مکمل کنٹرول کے حصول کی لڑائی
یوکرین کی فوج نے منگل کے روز کہا ہے کہ روسی افواج ڈونیٹسک اور لوہانسک کے علاقوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی کوششوں پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں۔
یہ ملک کے مشرقی حصے میں حکمت عملی کے حامل علاقے ہیں جو روس کو جزیرہ نما کرایمیا کے ساتھ جوڑتے ہیں ۔ کرائیمیا پر روس نے آٹھ سال قبل قبضہ کیا تھا۔
فوج کے جنرل اسٹاف کا یہ بیان روس کی جانب سے کیف کے آس پاس کے علاقوں سے پیچھے ہٹنے کے ایک دن بعدسامنے آیا ہےجس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یوکرین بھر میں میں شہری اہداف پر روسی میزائل اور فضائی حملے بند نہیں ہو رہےاورہم پہلے ہی کہہ سکتے ہیں کہ روسی فوجیوں نے ڈونباس کے لیے جنگ شروع کر دی ہے، جس کے لیے وہ طویل عرصے سے تیاری کر رہے ہیں۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے پیر کو دیر گئے ایک ویڈیو خطاب میں کہاکہ روسی فوج کا ایک بڑا حصہ اس کارروائی کے لیے مختص ہے ۔ڈونباس علاقے میں لوہانسک اور ڈونیٹسک شامل ہیں۔ یہ دو صوبے پہلے ہی جزوی طور پر روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے قبضے میں ہیں اوراس کے ساتھ ہی جنوب میں محصور بندرگاہ کا شہر ماریوپول بھی شامل ہے۔
روس کی وزارت دفاع نے منگل کو کہا کہ اس کی افواج نے رات کے دوران 1200 سے زائد اہداف پر میزائیلوں اور توپخانے سے حملےکیے ہیں ۔ ان میں مشرقی یوکرین میں بھی درجن بھر سے زائد حملے شامل
۔ہیں
جنگ بندی کے لیے روس اور یوکرین کے وزرائے خارجہ سے رابطہ کیا جا رہا ہے، ترکی
ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے کہا ہے کہ یوکرین کے تنازع کوختم کرانے کی ترکی کوششوں کے سلسلے میں روس اور یوکرین کے اپنے ہم منصبوں سے ٹیلی فون رابطے کی کوششیں جاری ہیں۔
چاوش اولو نے منگل کےروز اخباری نمائندوں کو بتایا کہ یوکرین کی سیکیورٹی کی ممکنہ ضمانتوں کے لیے ترکی پانچ عالمی طاقتوں امریکہ، چین، فرانس، روس اور برطانیہ اور دیگر ملکوں سے بھی گفتگو کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ضمانتوں سے متعلق یوکرین کی درخواست نیٹو معاہدے کی شق 5 سے مطابقت رکھتی ہے، جس کی ابھی تک کسی نے حمایت نہیں کی، خاص طور پر مغربی ملکوں نے۔
انھوں نے کہا کہ اگر ضمانتیں میسر نہیں ہوں گی جیسا کہ نیٹو کی شق 5 میں کہا گیا ہے تو پھر سوچا جائے گا کہ دوسرا راستہ کیا ہوسکتا ہے۔ ہم ان باتوں کی تفصیل پر غور کر رہے ہیں۔ ہمیں جنگ بندی کے امکان کی تیاری کرنی چاہیے''۔
انھوں نے یہ بات ترکی کا دورہ کرنے والے ہنگری کے وزیر خارجہ کے ساتھ انقرہ میں مشترکہ اخباری کانفرنس کے دوران کہی۔ترکی نیٹو کا رکن ہے جس کے روس اور یوکرین دونوں ہی کے ساتھ قریبی مراسم ہیں۔ ترکی نے گزشتہ ماہ یوکرین اور روس کے وزرائے خارجہ کی دو ملاقاتیں کرائی تھیں جن میں جنگ بندی سے متعلق بات چیت ہوئی تھی۔
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کئی بار کہہ چکے ہیں کہ انہیں توقع ہے کہ وہ روس اور یوکرین کے سربراہان کے مابین مذاکرات کرانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔