یورپی ممالک نے درجنوں روسی سفارت کاروں کو بے دخل کردیا
یورپی یونین کے کئی ممالک نے درجنوں روسی سفارت کاروں کو بے دخل کر دیا ہے جن میں سے کچھ کے خلاف یہ اقدام مبینہ طور پر جاسوسی کے الزام میں اٹھایا گیا ہے۔
آئرلینڈ کے وزیرِاعظم نے منگل کو روسی سفارت کاروں کی بے دخلی کو ایک مربوط اقدام قرار دیا تھا۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' نے ایک رپورٹ میں کہا کہ ماسکو کے یوکرین پر حملے کے بعد روس اور مغرب کے درمیان تعلقات منجمد ہو گئے ہیں۔
مغربی یورپ کے ملک نیدرلینڈز نے کہا کہ وہ 17 روسی شہریوں کو ملک بدر کر رہا ہے جن کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ خفیہ سرگرمیوں میں ملوث تھے۔
بیلجیم نے کہا کہ وہ 21 روسیوں کو نکال رہا ہے۔ جمہوریہ چیک نے ایک روسی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کے لیے 72 گھنٹے کا وقت دیا ہے۔ آئرلینڈ نے چار سینئر روسی اہلکاروں کو کہا کہ وہ ملک چھوڑ دیں کیونکہ ان کی سرگرمیوں کو "سفارتی رویے کے بین الاقوامی معیار کے مطابق" نہیں سمجھا گیا۔
حملوں میں کمی کے وعدے کے باوجود، کیف کے مضافات اور چرنیخیف میں روسی افواج کے حملے جاری
روسی افواج نے بدھ کو کیف کے مضافات اور شمالی یوکرین کے ایک محصور شہر پر بم حملے کیے، جب کہ ایک ہی روز قبل یہ کہا گیا تھا کہ فوجی کارروائیوں میں کمی کی جائے گی۔ مغرب ممالک نے کل ہی روس کی اس یقین دہانی کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ یہ ایک بہانہ ہو سکتا ہے تا کہ روسی افواج یہاں سے نکل کر دوسرے مقام پر اکٹھی ہو سکیں، چونکہ ان مقامات پر روس کو بہت جانی نقصان پہنچا ہے۔
روس کے حملوں کو تقریباً پانچ ہفتے ہو گئے ہیں جس دوران وہ ملک کے کسی اہم شہر پر قبضہ نہیں کر سکا ہے۔ روس نے کہا تھا کہ امن مذاکرات کے لیے وہ کیف کے قریب اور چرنیخیف کے شمالی شہر میں اپنی کارروائیوں میں کمی لائے گا۔
لیکن کیف میں موجود رائٹرز کے صحافیوں نے بدھ کی صبح مضافاتی محاذوں سے ہر سمت شدید بمباری کی آوازیں سنیں۔ دارالحکومت پر رات بھر حملہ نہیں کیا گیا لیکن اس کے مضافات میں جاری گولہ باری کی وجہ سے کیف کے مکانو کی کھڑکیاں لرزتی اور بجتی رہیں۔
چرنیخیف کے میئر ولادیسلوا اسٹرشنکو نے بتایا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران روسی بم حملوں میں اضافہ ہوا ہے، جب کہ شہر میں ایک لاکھ سے زائد افراد پھنسے ہوئے ہیں، جن کے پاس بمشکل ایک ہفتے کی خوراک اور طبی رسد موجود ہے۔
ایک انٹرویو میں میئر نے 'سی این این' نیوز چینل کو بتایا کہ ''یہ اس بات کی تصدیق ہے کہ روس ہمیشہ دروغ گوئی سے کام لیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے حملوں میں شدت آئی ہے۔ بدھ کو چرنیخیف کے مرکزی علاقے پر شدید گولہ باری سے 25 شہری زخمی ہو گئے تھے''۔
امن مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، روس
روس نے بدھ کے روز کہا ہے کہ یوکرین کے ساتھ امن مذاکرات میں ابھی تک پیش رفت کے حصول کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔
منگل کو استنبول میں مذاکرات کے آغاز پر یوکرین نے مطالبات کی ایک فہرست پیش کی تھی، جس کا مقصد 36روز سے جاری لڑائی کو بند کرانا تھا۔ یہ بات کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے ایک اخباری بریفنگ کے دوران بتائی ہے۔
یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی کے ایک مشیر نے بتایا ہے کہ دونوں فریقوں نے ممکنہ جنگ بندی کی شرائط پر گفتگو کی، ساتھ ہی یوکرین کے لیے سلامتی کی بین الاقوامی ضمانتوں کا سوال اٹھایا جسے منگل کی نشست کے دوران سامنے لایا گیا تھا۔
یوکرین کے مذاکرات کاروں نے یہ تجویز بھی دی کہ ضمانتوں کے بدلے کیف غیر جانبدار حیثیت اختیار کرے گا، جیسا کہ نیٹو یا کسی دیگر فوجی اتحادوں میں شمولیت اختیار نہ کرنا۔
پیسکوف نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ روس اس حقیقت کا خیرمقدم کرتا ہے کہ کیف نے اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش کیے ہیں، لیکن کہا کہ روس نے بہتری کے کوئی اقدام نہیں دیکھے جن کی بنیاد پر حتمی سمجھوتا کیا جا سکے۔
دریں اثنا، یوکرین کے مقامی اہل کاروں نے کہا ہے کہ روسی افواج نے دارالحکومت کیف کے مضافات اور شمالی شہر چرنخیف میں گولہ باری جاری رکھی ہوئی ہے، حالانکہ روس نے وعدہ کیا تھا کہ خیرسگالی کے طور پر وہ ان مقامات پر فوجی حملوں میں کمی لائے گا۔
پوٹن اور ان کے مشیروں کے درمیان اعتماد کی کمی کا انکشاف
وائس آف امریکہ کے قومی سلامتی کے نمائندے، جیف سیلڈن نے بدھ کو ایک امریکی اہل کار کے حوالےسے بتایا ہے کہ ڈی کلاسی فائی ہونے والی تازہ ترین معلومات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور ان کے اعلیٰ مشیروں کے درمیان اعتماد ختم ہو چکا ہے۔
امریکی اہل کار نے بتایا کہ ''ہمارے پاس یہ اطلاع موجود ہے کہ روسی ملٹری نے پوٹن کو گمراہ کیا۔ اس وقت پوٹن اور وزارت دفاع کے درمیان تناؤ کے کیفیت ہے، جس کی وجہ وزارت دفاع کی قیادت پر پوٹن کی بداعتمادی بتائی جاتی ہے''۔
انھوں نے کہا کہ ''پوٹن کو اس بات کا بھی علم نہیں تھا کہ یوکرین میں لڑنے کے لیے فوج جبری بھرتیاں کر رہی ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ روسی صدر کو فراہم کی جانے والی معلومات کے درست ہونے کا معاملہ کس قدر بیکار تھا''۔
امریکی اہل کار نے مزید کہا کہ ''ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مشیر پوٹن کو یہ بات نہیں بتاتے کہ روسی فوج کی کارکردگی کتنی خراب ہے اور تعزیرات کے نتیجے میں روسی معیشت کو کتنا دھچکا لگا ہے ،چونکہ ان کے سینئر مشیر انھیں سچ بات بتانے سے ڈرتے ہیں''۔