رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں مختلف ادوار میں حکومتیں پولیس فورس کو بہتر بنانے اور اُس محکمے میں احتساب کا عمل متعارف کروانے میں کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔
فضائیہ کے مطابق طیارہ زمین پر گرنے سے کسی جانی یا مالی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے تاہم اس واقعہ کی وجوہات جاننے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔
یہ فضائی مشقیں ایسے وقت ہو رہی ہیں جب بھارتی کشمیر کے علاقے ’اوڑی‘ میں گزشتہ اتوار کو عسکریت پسندوں کے حملے میں 18 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔
نفیس ذکریا نے کہا کہ اُن کے پاس اب تک ایسی کوئی خبر نہیں ہے کہ امریکہ نے احمد خان راحمی سے متعلق معلومات کے حصول کے لیے پاکستان سے رابطہ کیا ہوا۔
حالیہ کشیدگی کے بعد ملک کے مختلف شہروں بشمول اسلام آباد میں بظاہر سکیورٹی مزید سخت کردی گئی ہے اور اس کی وجہ دہشت گردی کا ممکنہ خطرہ بتایا جا رہا ہے۔
پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ ’’بھارتی قیادت کی جانب سے پاکستان پر بلا جواز الزامات کی روش اور معنی خیز مذاکرات سے گریز خطے میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔‘‘
جنرل راحیل شریف نے کہا کہ خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے ’’اس سے ہم مکمل طور پر باخبر ہیں اور خطے میں رونما ہونے والے واقعات اور اُن کے پاکستان کی سلامتی پر اثرات پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
وفاقی محتسب کی رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ وسائل کی کمی محکمہ پولیس میں بدعنوانی کی ایک بڑی وجہ ہے جب کہ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ پولیس اہلکار تفتیش اور تحقیقات کے جدید طریقوں سے آشنا نہیں ہیں۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں افغان صدر کے بیان پر اپنے ردعمل میں کہا کہ ’’یقیناً یہ بیان کسی طور مدد گار نہیں ہے اور مایوس کن ہے۔‘‘
پاکستان اور امریکہ کے درمیان اس سے قبل بھی ناصرف مشترکہ فوجی مشقیں ہوتی رہی ہیں بلکہ امریکہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان سے تعاون کرتا رہا ہے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی طلال چوہدری کہتے ہیں کہ ’’ہم ابھی بھی چاہیں گے کہ زور زبردستی یا کوئی ایسا ماحول نا بنے، کہ پاکستان کی گزشتہ 30 سال کی میزبانی کے بارئے کوئی غلط تاثر بنے۔۔‘‘
رواں ہفتے ہی وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس مدت میں مزید توسیع کا فیصلہ کرتے ہوئے اب اسے مارچ 2017 تک بڑھا دیا گیا ہے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کہتے ہیں کہ ملک کو دہشت گردی کے خلاف نا صرف بھاری جانی نقصان اُٹھانا پڑا بلکہ اُن کے بقول ملکی معیشت کو بھی تقریباً 107 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
امریکہ کے علاوہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی طرف سے بھی حالیہ ہفتوں میں ایسے بیانات سامنے آتے رہے ہیں کہ پاکستان اور بھارت مذاکرات کے ذریعے اپنے مسائل کا حل تلاش کریں۔
اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ خریدنے کے لیے لائسنس کی فراہمی کا یہ فیصلہ بظاہر امن و امان کی صورت حال کے تناظر میں کیا گیا ہے۔
افغان مہاجرین کا کہنا ہے کہ اگر اُنھیں زبردستی واپس بھیجا گیا، تو 30 سال سے زائد عرصے تک پاکستان نے اُن کی جو میزبانی کی، اُن قربانیوں کو دھچکا لگے گا۔
پاکستان کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ملک میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے سبب بہت سے جنگجو سرحد پار افغانستان منتقل ہو گئے ہیں جہاں سے وہ ملک میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
مزید لوڈ کریں