بلوچستان میں کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے مکمل لاک ڈاون کا آغاز ہو گیا ہے۔ لیکن دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں پر ان پابندیوں کا کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کی ہے ضلع مستونگ کے ایک دور افتادہ گاؤں میں وائس آف امریکہ کے نمائندے مرتضیٰ زہری نے اس ڈیجیٹل رپورٹ میں۔
بلوچستان کی صوبائی حکومت نے کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے کوئٹہ شہر کو مکمل لاک ڈاؤن کر دیا ہے۔ حکومت نے لاک ڈاؤن کے دوران نمازِ جنازہ کے لیے بھی خصوصی ہدایات جاری کی ہیں۔ مزید جانتے ہیں کوئٹہ سے مرتضیٰ زہری کی زبانی
پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سرحدی گزر گاہ چمن کو سامان کی ترسیل کے لیے کھول دیا ہے۔ کرونا وائرس کے باعث یہ سرحد کئی روز سے بند تھی۔ بارڈر بند ہونے سے دونوں اطراف اشیائے خور و نوش اور دیگر سامان لانے والے سیکڑوں ٹرک پھنس گئے تھے۔
بلوچستان میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کے بعد حکومت نے نئے قرنطینہ مراکز قائم کیے ہیں۔ لیکن آبادی کے نزدیک قرنطینہ مراکز بنانے کے باعث مقامی لوگ اپنے تحفظات کا بھی اظہار کر رہے ہیں۔ نئے قرنطینہ مراکز کتنے معیاری ہیں اور ان میں کیا سہولیات ہیں؟ دیکھیے مرتضیٰ زہری کی اس رپورٹ میں۔
کرونا وائرس کے پیشِ نظر بلوچستان کے سرکاری دفاتر شہریوں کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔ دفاتر اور عدالتیں بند ہونے سے شہری پریشانی کا شکار ہیں۔ کچھ لوگ یہ خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن سے کہیں اسٹریٹ کرائمز نہ بڑھ جائیں۔ دیکھیے کوئٹہ سے مرتضیٰ زہری کی یہ رپورٹ
کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ایران سے پاکستان آنے والے زائرین کو تفتان کے قرنطینہ مرکز میں رکھا جا رہا ہے۔ لیکن شہری وہاں عدم سہولیات کا شکوہ کر رہے ہیں۔ قرنطینہ مرکز میں لوگوں کو کیا مشکلات درپیش ہیں؟ جانتے ہیں وہاں مقیم ایک پاکستانی کی زبانی۔
کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ایران سے آنے والے زائرین کو کوئٹہ میں ٹھیرانے اور قرنطینہ مرکز قائم کرنے کے خلاف کچھ مقامی شہریوں نے بدھ کو احتجاج کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے کوئٹہ میں کرونا وائرس پھیلنے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ مزید دیکھیے کوئٹہ سے مرتضیٰ زہری کی ڈیجیٹل رپورٹ میں۔
کوئٹہ سے 20 کلو میٹر کے فاصلے پر کرونا وائرس کے خدشے کے پیشِ نظر قرنطینہ مرکز قائم کیا گیا ہے جہاں تفتان سے آنے والے زائرین کو رکھا جائے گا۔ اس مرکز میں 500 افراد کو رکھنے کی گنجائش ہے۔ منتظمین کے مطابق یہاں تعینات اسٹاف کو بنیادی تربیت دی جا چکی ہے۔ مزید دیکھیے مرتضیٰ زہری کی ڈیجیٹل رپورٹ
بلوچستان کے اسپتالوں میں کرونا وائرس کی اسکریننگ کی سہولت میسر نہیں۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اُنہیں ماسک تک نہیں مل رہے جس کی وجہ سے ان کے اہل خانہ ان پر کام نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔مزید دیکھیے مرتضیٰ زہری کی ڈیجیٹل رپورٹ
ادھر محکمہ صحت کے حکام کے مطابق کرونا وائرس سے بچاؤ اور حفاظتی تدابیر کے سلسلے میں سرحد پر موجود لوگوں کو پاکستان ہاوس منتقل کیا گیا ہے۔ جہاں ان کا طبی معائنہ جاری ہے۔ ان افراد کو مزید 10 روز تک نگرانی میں رکھا جائے گا۔
بلوچستان کے شہر سبی میں ہونے والا سالانہ تفریحی میلہ ثقافتی حیثیت اور خاصی شہرت رکھتا ہے۔ میلے میں زرعی، ثقافتی اور کئی دیگر اشیا کی نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سبی میلے میں شرکت کے لیے رواں سال بھی دور دور سے شائقین آئے ہیں۔ تفصیل مرتضیٰ زہری کی اس ڈیجیٹل رپورٹ میں۔
کوئٹہ کے ایک مصروف کاروباری علاقے میں ہونے والے خود کش حملے میں آٹھ افراد ہلاک جب کہ 14 زخمی ہوگئے ہیں۔ پولیس کے مطابق حملہ آور کا نشانہ ایک مذہبی جماعت کی ریلی تھی لیکن پولیس اہلکاروں نے اسے جلوس کے نزدیک نہیں جانے دیا۔
بلوچستان میں ہاتھ سے بنے قالینوں کے بجائے ایران کے شہر کاشان سے درآمد کیے گئے قالینوں کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ خریداروں کا کہنا ہے کہ یہ قالین خوبصورت، پائیدار اور کم قیمت ہوتے ہیں۔ مزید دیکھیے مرتضیٰ زہری کی اس ڈیجیٹل رپورٹ میں
بلوچستان کے سماجی کارکن سلیمان خان ان دنوں ہر جانب سے شاباش سمیٹ رہے ہیں۔ سلیمان نے حالیہ برف باری کے دوران کوئٹہ ژوب شاہراہ پر پھنسے 100 سے زائد مسافروں کو ریسکیو کیا تھا۔ سلیمان کہتے ہیں برف باری رحمت ہے۔ اگر نوجوان بھی برف باری کے دوران گھر بیٹھ کر حکومت کا انتظار کریں تو یہ رحمت آفت بن جاتی ہے۔
کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر اضلاع میں برف باری کا سلسلہ تھم چکا ہے لیکن لوگوں کی مشکلات بدستور برقرار ہیں۔ گیس پریشر میں کمی پر شہریوں کا کہنا ہے کہ اس صورت حال سے وہ بہت تنگ ہیں۔ سڑکوں پر برف جمنے سے حادثات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ مزید دیکھیے مرتضیٰ زہری کی ڈیجیٹل رپورٹ
امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی کے اثرات ایران کی کرنسی پر بھی پڑ رہے ہیں۔ پاکستان کی اوپن مارکیٹ میں روپے کے مقابلے میں ایرانی کرنسی کی قدر میں کمی دیکھی گئی۔ بلوچستان کے بہت سے تاجر کرنسی ایکسچینج کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ اُن کے بقول ایک ہفتے سے ایرانی کرنسی کا کوئی خریدار نہیں ہے۔
کوئٹہ میں موسم سرما کی ایک سوغات یہاں کے مشہور کابلی کباب بھی ہیں۔ کابلی کباب پہلے پہل افغان مہاجرین نے یہاں متعارف کرائے تھے اور صرف تین ریستورانوں میں ہی دستیاب تھے۔ لیکن مقامی افراد اور سیاحوں کی پسندیدگی میں اضافے کے بعد کابلی کباب کا کاروبار بھی پھیلتا جا رہا ہے۔
کوئٹہ میں شطرنج کے وہ کلب جو نوّے کی دہائی میں بند ہو گئے تھے، دوبارہ آباد ہو رہے ہیں۔ شطرنج کے پرانے کھلاڑی کلبوں کے علاوہ اسکولوں اور کالجز میں بھی مقابلے کرا رہے ہیں جس سے بچوں اور طلبہ میں شطرنج کھیلنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ دیکھیے کوئٹہ سے مرتضیٰ زہری کی ڈیجیٹل رپورٹ
کوئٹہ میں انتہائی سرد موسم میں کوئلے پر بننے والی سبز چائے شہریوں کا مرغوب مشروب ہے۔ جگہ جگہ چائے خانوں میں لوگوں کا رش نظر آتا ہے۔ یہ سبز چائے نہ صرف کوئلے پر بنتی ہے بلکہ یہ روایتی مٹی کے برتن میں سبز چائے، الائچی اور ادرک سے بنائی جاتی ہے۔
مزید لوڈ کریں