Sidra Dar is a multimedia journalist based in Karachi, Pakistan.
کراچی میں سجنے والے دو روزہ ادبی جشن میں بچوں نے زور و شور سے حصہ لیا۔ اس ادبی میلے میں کتاب اور مطالعے کی اہمیت، موسیقی، قصہ گوئی، پتلی تماشے، پینٹنگ اور فروغِ تعلیم کے لیے گراں قدر خدمات دینے والوں کی یاد میں خصوصی نشستوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔
پاکستان میں خواجہ سرا آج بھی اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ معاشرتی رویوں کے سبب بہت سے خواجہ سرا چاہتے ہوئے بھی آگے نہیں بڑھ پاتے۔ لیکن سندھ کے شہر میر پورخاص کے حیدر نے تمام تر رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود اپنے اور اپنی کمیونٹی کے لیے روزگار کا بہتر ذریعہ تلاش کر لیا ہے۔
آصف کے لیے ڈانس وہ تھا جو فلم میں نظر آتا تھا اور اسی شوق کو پورا کرنے کے لیے وہ اکثر خاندان میں ہونے والی شادی کی تقریبات میں ڈانس کرتے اور خوب داد سمیٹتے۔
بیکنگ یا پروفیشنل کوکنگ کے میدان میں عموماً مردوں کا راج ہے۔ خواتین کا کسی ہوٹل یا ریستوران کے کچن میں کوکنگ کرنا اب بھی کئی لوگوں کے لیے انہونی بات ہے۔ لیکن کراچی کی کنول ایک کیفے میں نہ صرف مردوں کو کام سکھا رہی ہیں بلکہ خود بھی وہاں اپنا ہنر آزما رہی ہیں۔
حال ہی میں سپریم کورٹ کے احکامات پر کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے تجاوزات کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کارروائی میں ایدھی فاؤنڈیشن کے 13 مراکز کو بھی مسمار کر دیا گیا۔ ان میں سے کئی سینٹرز ایسے علاقوں میں واقع تھے جہاں حادثات کی شرح بہت زیادہ ہے۔
بلقیس ایدھی کہتی ہیں کہ ایک دفعہ ڈاکووں نے پہچاننے پر ایدھی صاحب کو لوٹی ہوئی رقم لوٹا دی تھی۔
کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں وہ شروع سے ہی ٹرکوں اور بسوں کو پھول پتیوں اور منفرد نقش و نگار سے مزین کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ گلریز کہتے ہیں کہ اس شوق اور کام نے ان کی زندگی کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔
رنگوں سے عشق بھی کسی کو سب کچھ چھوڑنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ ایسا ہی ہوا پشاور کے نوجوان گلریز آفریدی کے ساتھ جنہوں نے ٹرکوں کو رنگین بنانے کے شوق میں کراچی کو اپنا گھر بنا لیا۔ اب وہ یہ آرٹ اور لوگوں تک بھی منتقل کر رہے ہیں۔
کرکٹ ورلڈ کپ 2019ء کے مانچسٹر میں ہونے والے پاک بھارت میچ میں پاکستان کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی شائقینِ کرکٹ نے بڑی امیدوں اور تیاریوں کے ساتھ میچ دیکھنے کا اہتمام کیا تھا لیکن روایتی حریف سے شکست کے بعد پاکستان ٹیم کے سپورٹرز خاصے مایوس نظر آئے۔
ان دنوں کراچی شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ اس کی ایک وجہ تو بحیرۂ عرب میں بننے والا 'وایو' نامی طوفان ہے جس نے اس وقت سمندری ہواؤں چلنے سے کو روکا ہوا ہے۔
سپریم کورٹ کے احکامات پر کراچی سرکلر ریلوے کی زمین سے تجاوزات کے خاتمے کا آپریشن جاری ہے۔ مختلف گنجان آبادیوں سے گزرنے پر پٹڑیوں کے اطراف میں گزشتہ دہائیوں کے دوران بننے والے کچے پکے مکانات کو بالآخر گرایا جا رہا ہے جن کے مکین اس کارروائی سے پریشان ہیں۔
نو برس کی عمر میں باکسنگ رنگ میں اترنے والی وردہ کا پہلا مقابلہ ان کی اپنی بہن سے تھا جس میں وہ جیت گئیں جبکہ اریبہ شکست کی وجہ یہ بتاتی ہیں احتراماً بڑی بہن پر میرا ہاتھ نہیں اٹھ رہا تھا۔ جبکہ وردہ نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا اور چھوٹی بہن سمجھ کر مجھے خوب مارا۔
امریکہ کے صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ میں اس وقت پولیو کی تشخیص ہوئی جب وہ کرسی صدارت پر فائز تھے۔ ان کے بقول حفاظتی تدابیر سے قبل امریکہ میں یہ مرض بچوں اور بڑوں دونوں کو لاحق ہو جاتا تھا۔
برطانوی نو آبادیات کے دور میں تعمیر ہونے والی کئی عمارتیں کراچی کا حسن اور پہچان ہیں۔ لیکن عدم توجہی کے سبب ان میں سے بہت سی عمارتیں یا تو منہدم ہو گئی ہیں یا خستہ حالی کا شکار ہیں۔ ان عمارتوں کو بچانے کے لیے کراچی کی ایک خاتون ماہرِ تعمیرات نے شہریوں کے ساتھ مل کر ایک مہم کا آغاز کیا ہے۔
سمیر میندھرو کہتے ہیں کہ ’’مجھ پر الزام لگایا گیا کہ ’عورت مارچ‘ میں، میں علاقے کی ضرورتمند خواتین کو بہکا کر لے گیا کہ وہاں راشن کی تقسیم ہے۔ اگر میں اتنا بڑا جھوٹ بولوں اور خواتین راشن لئے بنا واپس بھی آجائیں تو کیا کمیونٹی میں، میں بدنام نہیں ہوں گا؟‘‘
کراچی کی اسما نے گھر کی کفالت اور شوہر کا ہاتھ بٹانے کے لیے دال چاول کا اسٹال لگایا جو خوب چلتا ہے ۔ خاص بات یہ ہے کہ ریستورانوں سے بھری اس گلی میں وہ واحد خاتون ہیں جو گھر کا بنا کھانا بیچ رہی ہیں اور اپنی منفرد پہچان رکھتی ہیں۔ ملیں بیگم گلی کی اسما بھابی سے۔
گزشتہ برس 'میرا جسم میری مرضی' اور 'اپنا کھانا خود گرم کرو' جیسے نعروں نے جہاں مردوں کو تنقید کرنے کا موقع دیا، وہیں اس بار بھی کچھ ایسے فقرے پڑھنے کو ملے جسے دیکھ کر یہ گمان ہوا کہ حقوق کی اس جنگ میں کچھ مطالبات ایسے بھی ہیں جن کا تعلق روزمرہ کی زندگی سے ہے
دنیا بھر میں آج پولیو کے خاتمے کا دن منایا جارہا ہے۔ پاکستان میں یہ وائرس اب بھی موجود ہے جس کا خاتمہ ایک مشن بن چکا ہے۔ کراچی کی ایک ایسی باہمت پولیو ورکر اس مشن کو آگے بڑھا رہی ہیں جن کی بھابھی اور بھانجی پولیو مہم کے دوران گولیوں کا نشانہ بن کر جان گنوا چکی ہیں۔
مزید لوڈ کریں