امریکی طیارے سے لوگوں کے گرنے کی اطلاعات کی چھان بین کا آغاز کر دیا گیا
امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میکنزی نے کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے امریکیوں کے انخلاء کی کاروائیوں کے بارے میں ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے وہاں کی صورتِ حال معلوم کرنے کے لئے ان فوجی لیڈروں سے بات کی ہے جو ایئرپورٹ کو سیکیورٹی فراہم کر رہے ہیں۔
انہوں نے کابل سے نکلنے والے سویلینز کی محفوظ منتقلی اور انخلا کے کام میں مصروف پروازوں کے لئے ائیر پورٹ کی صورتحال کو تسلی بخش قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ فی الوقت ایئرپورٹ کا ایئر فیلڈ محفوظ ہے اور اسے سویلین پروازوں کے لئے کھول دیا گیا ہے۔ جبکہ امریکی فوجی اور محکمہ خارجہ کے اہل کارمل جل کر ایئر پورٹ کی حفاظت کو یقینی اور انخلاء کی کارروائی کو محفوظ بنا رہے ہیں۔
جنرل میکینزی نے مزید کہا کہ اتوار کے روز دوحہ میں طالبان کے سینئیر لیڈروں سے میٹنگز میں انہیں خبردار کیا گیا تھا کہ وہ امریکی فوجیوں اور شہریوں کے انخلاء کے کام میں مداخلت نہ کریں۔ اور اگر اس دوران کوئی حملہ کیا گیا تو اس کا جواب طاقت سے دیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی شہریوں اور اپنے رفقاء کی حفاظت امریکہ کی اولین ترجیح ہے اور امریکی سفارت خانہ ان کے انخلاء اور خطرے میں گھرے افغان شہریوں کو خصوصی ویزے جاری کر نے کا کام کر رہا ہے ۔
طالبان کو تسلیم کرنا قبل از وقت ہے: امریکہ
امریکہ نے کہا ہے کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے وائٹ ہاؤس میں منگل کو افغانستان کی صورتِ حال پر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کابل سے امریکی شہریوں کی انخلا کا عمل جاری ہے اور اس سلسلے میں افواج کام کر رہی ہیں۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا امریکہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لے گا؟ اس پر انہوں نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے اور یہ طالبان پر منحصر ہے کہ وہ دنیا کے سامنے اپنے ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے کس طرح پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کا ماضی کچھ اچھا نہیں رہا ہے اور اس موقع پر انہیں تسلیم کرنے سے متعلق کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔
افغانستان کی صورتِ حال پر بھارت کی خاموشی پر آوازیں اُٹھنے لگیں
افغانستان پر طالبان کے قبضے اور اشرف غنی کے ملک چھوڑنے کے دو روز بعد بھی بھارت کی جانب سے وہاں کی صورت حال پر تاحال باضابطہ طور پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔
البتہ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ اُن کی ساری توجہ افغانستان میں پھنسے اپنے شہریوں کو نکالنے پر مرکوز ہے۔
بین الاقوامی امور کے ایک سینئر تجزیہ کار اور صحافی حسن کمال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھار ت کی خاموشی سے ایسا لگتا ہے جیسے اسے خبر ہی نہیں ہے کہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے۔ پورے ملک پر طالبان نے قبضہ کر لیا ہے اور صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
انہوں نے اس صورتِ حال کو بھارت کی خارجہ پالیسی کی مکمل ناکامی قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ بھارت کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے صرف اشرف غنی پر اعتبار کیا۔ اب اشرف غنی جا چکے ہیں تو یہاں کی حکومت کچھ سمجھ نہیں پا رہی ہے کہ اسے کس قسم کا ردِ عمل ظاہر کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کی دوسری بڑی غلطی یہ ہے کہ اس نے طالبان کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ امریکہ جو کہ 20 برسوں سے طالبان سے لڑ رہا ہے وہ ان سے بات کر رہا ہے۔ اسی وقت بھارت کو سنبھل جانا چاہیے تھا اور اشرف غنی کے علاوہ دیگر افغان دھڑوں سے بھی بات چیت کرنی چاہیے تھی۔
ملا برادر کی 20 سال بعد افغانستان آمد
کابل میں طالبان جنگجوؤں کی آمد کے باوجود شہر کا ماحول بظاہر پرامن ہے۔ افغانستان کی تازہ ترین صورت حال کے کچھ پہلوؤں کی تفصیل جانتے ہیں اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نذرالاسلام سے سارہ زمان کی گفتگو میں۔