ماریوپول میں اب تک 1730 یوکرینی فوجی ہتھیار ڈال چکے ہیں، روس
ریڈ کراس کی بین الا قوامی کمیٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کمیٹی ایزوستل سے نکلنے والے جنگجوؤں کا اندراج کر رہی ہے۔ یہ عمل منگل کو شروع ہوا تھا اور جمعرات تک جاری تھا۔
روسی فوج نے جمعرات کے روز کہا ہے کہ ایزوستل سٹیل ورکس میں پیر کے دن سے اب تک یوکرین کے 1,730 فوجیوں نے ہتھیار ڈالے ہیں۔
یو کرینی حکام نے ماریوپول کے اس آخری مقام پر ہتھیار ڈالنے والے فوجیوں کی روس کی دی گئی تعداد کی تصدیق نہیں کی اور امید ظاہر کی ہے کہ یہ فوجی روس کے ساتھ جنگی قیدیوں کے تبادلے کا حصہ ہوں گے جب کہ روس کے بڑے تحقیقاتی ادارے نے کہا ہے کہ ان فوجیوں سے چھان بین کی جائے گی کہ آیا وہ سولینز کے خلاف جرائم میں ملوث تھے۔
بحیرہ ایزوو کے شمالی ساحل پر واقع، 430,000 کی آبادی والے شہر ماریو پول پر روسی قبضہ، تقریباً تین ماہ کی اس جنگ میں ماسکو کی سب سے بڑی کامیابی ہو گی۔
ایسے میں جب روسی فوجیں اپنی توجہ مشرق میں ڈونباس کے علاقے پر مرکوز کر رہی ہیں، صدر ولودیمیر زیلنسکی کے ایک معاون، میخائلو پودلیاک نے، جو روس کے ساتھ بات چیت کے متعدد ادوار میں شریک رہے ہیں، جمعرات کے روز کہا،" روسی فوجوں کے مکمل انخلاء کے بغیر روس کے ساتھ جنگ بندی پر رضامندی ممکن نہیں۔"
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینئیر عہدیدار نے بدھ کے روز کہا ہے کہ روس ڈونباس سمیت، مکولائیو اور خرسان کے قریب بحیرہ اسود کی سمت میں پیش قدمی کر رہا ہے۔ تاہم یہ پیش قدمی روزانہ چند کلو میٹر سے زیادہ نہیں۔
(اس خبر میں معلومات ای ایف پی، اے پی اور رائٹرز سے لی گئی ہیں)
امریکی سینیٹ میں یوکرین کےلیے 40 ارب ڈالر کے امدادی پیکیج پر رائے شماری
امریکی سینٹ میں آج جمعرات کے روز یو کرین کے لیے چالیس ارب ڈالر کے امدادی پیکیج کے بارے میں رائے شماری ہو رہی ہے۔
اس پیکیج میں یو کرین کے لیے فوجی سازوسامان، تربیت اور ہتھییاروں کے علاوہ یو کرین کو بھیجے گئے امریکی سازوسامان کی ری لوڈنگ، اور ان ممالک کی مدد کے لیے رقم شامل ہے جو یوکرین کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔
اس میں اربوں ڈالر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کے لیے بھی رکھے گئے ہیں جبکہ روس یوکرین تنازعے سے عالمی سطح پر خوراک میں کمی سے نمٹنے کے لیے بھی رقم شامل ہے۔
گزشتہ ہفتے ایوانِ نمائندگان نے بھاری اکثریت سے اس پیکیج کی منظوری دی تھی۔
اگر سینٹ سے منظور ہو گیا تو یہ پیکیج دستخطوں کے لیے صدر بائیڈن کو بھجوا دیا جائے گا۔
فن لینڈ اور سویڈن کے رہنماؤں سے صدر بائیڈن کی ملاقات
امریکی صدر جو بائیڈن نے فن لینڈ اور سویڈن کے رہنماؤں سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی ہے۔ اور نیٹو میں شمولیت کے لیے ان کی دی گئی درخواست کی مکمل حمایت کی ہے۔تاہم ترکی نے کہا ہے کہ وہ ان بالٹک ریاستوں کے نیٹو کا رکن بننے کی مخالفت کرے گا۔
فن لینڈ کے صدر ساؤلی نینیستا اور سویڈن کی وزیرِ اعظم ماگڈالینا اینڈرسن سے بائیڈن کی ملاقات وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں ہوئی۔جہاں دونوں ممالک سے اتحاد اور حمایت کے اظہار کے لیے ان کے قومی جھنڈے آویزاں کیے گئے تھے۔
صدر بائیڈن نے کہا ،" فن لینڈ اور سویڈن نیٹو کو مضبوط بنائیں گے۔ یہ مضبوط جمہوریتیں ہیں اور مضبوط نیٹو امریکی سلامتی کی بنیاد ہے۔"
صدر بائیڈن نے کہا کہ ان کی انتظامیہ کانگریس کو دستاویزات پیش کر رہی ہے تاکہ دونوں ممالک کی نیٹو میں شمولیت کی منظوری کا عمل تیز کیا جا سکے۔
ترکی نے فن لینڈ اور سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کی سخت مخالفت کی ہے۔ اس نے سویڈن پر زور دیا ہے کہ وہ کرد عسکریت پسندوں کی جنہیں ترکی ایک دہشت گرد گروپ کا حصہ خیال کرتا ہے، حمایت بند کردے اور دونوں ملک ترکی پر عائد ہتھیاروں کی فروخت کی پابندیاں ختم کریں۔
روس یوکرین سےدنیا سے خوراک کی فراہمی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے،بلنکن
امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے جمعرات کو روس پر الزام لگایا کہ وہ یوکرین سے خوراک کی سپلائی روک کر اسے ہتھیار کے طور پر یرغمال بنا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف لاکھوں لوگ یوکرین میں بلکہ دنیا بھر میں بھی لاکھوں لوگ یوکرین
سے خوراک کی اس برآمد پر انحصار کرتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے بلنکن نے روس سے اپیل کی کہ وہ یو کرین کی بندرگاہوں کی ناکہ بندی ختم کرے۔
روس نے 24 فروری کو یو کرین پر حملہ کیا تھا اور ماسکو اسے "خصوصی فوجی آپریشن " کا نام دیتا ہے۔
یو کرین میں جنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر اناج، خوردنی تیل، ایندھن اور کھاد کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔
روس اور یو کرین عالمی سطح پر گندم کی تقریباً ایک تہائی ترسیل کرتے ہیں۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے روس کا یہ الزام مسترد کردیا کہ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ یو کرین کی جنگ کے باعث روس پر لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتیرس ایسے کسی امن معاہدے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی مدد سے یو کرین کو بحیرہ اسود کے ذریعے خوراک کی برآمد کی اجازت ہو اور عالمی منڈیوں میں روسی خوراک اور کھاد کی فراہمی دوبارہ شروع کی جا سکے۔