یوکرین کے مہاجرین میں 90 فی صد خواتین اور بچے ہیں
اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا ہے کہ روس کے حملے کے بعد یوکرین چھوڑ کر دوسرے ممالک جانے والے افراد میں 90 فی صد خواتین اور بچے ہیں۔
ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ ان مہاجرین کو بے پناہ خطرات کا سامنا ہے۔ انہیں انسانی اسمگلنگ، استحصال اور صنفی بنیاد پر تشدد کا سامنا ہے۔
سفیر لنڈا گرین نے زور دیا کہ ان مہاجرین کو درپیش خطرات کو کم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
90 percent of the people who have had to flee Ukraine are women and children. They face immense risks – of being trafficked, exploited, and experiencing gender-based violence. And we must do everything we can to mitigate those risks.
— Ambassador Linda Thomas-Greenfield (@USAmbUN) April 19, 2022
چونوبل اور یوکرین کے جوہری پاور پلانٹ کے نگراں ادارے کے مابین رابطہ بحال
یوکرین نےمنگل کے روز ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے اِی اے) کو بتایا ہے کہ روسی فوج کی جانب سے تنصیب خالی کرنے کے بعد، چونوبل نیوکلیئر پاور پلانٹ اور یوکرین کے ایٹمی توانائی کے نگراںادارے کے مابین براہ راست رابطہ بحال ہوگیا ہے۔
آئی اے اِی اے کے ڈائریکٹر جنرل رفائی گروسی نے کہا ہے کہ یہ پیش رفت ایک ''بہت ہی اچھی خبر '' ہے اور یہ کہ اسی ماہ ماہرین کے ایک وفد کی قیادت کرتے ہوئے وہ خود صورت حال کا جائزہ لیں گے۔
روسی افواج نے یوکرین پر حملے کے فوری بعد چرنوبل پاور پلانٹ پر قبضہ کر لیا تھا، جسے 31 مارچ کو خالی کیا گیا۔
ماریوپول میں مزاحمت کے گڑھ کے خلاف روسی فوج کی گھمسان کی لڑائی
روسی افواج نے بدھ کو ماریوپول شہر کے اس علاقے پردباؤ بڑھا دیا ہے جہاں سے اسے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔اب یہ امید ہو چلی ہے کہ بندرگاہ والے اس شہر کے ہزاروں محصور شہریوں کا انخلا ممکن ہوسکے گا۔ ماریوپول کے کلیدی میدان جنگ میں روسی افواج کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ اس پر قبضہ جماسکیں تاکہ مشرقی یوکرین کا یہ اہم صنعتی علاقہ ان کے کنٹرول میں آ سکے۔
ماریوپول کے مزاحمت والے اس علاقے کو نشانہ بنانے کے علاوہ روسی فورسزنے ڈونباس کے سینکڑوں میل کی طویل پٹی پر قبضے کی جنگ تیز کردی ہے۔ اگر روس یہاں کامیاب ہوجاتا ہے تو یوکرین کے دو ٹکڑے ہوجائیں گے اور اس کے بعد صدر ولادیمیر پوٹن کو گنتی کی کامیابی مل سکتی ہے، جس کے لیے وہ برے طرح تڑپ رہے ہیں، چونکہ روس کی افواج نے پہلے ہی دارالحکومت کیف پر قبضے کی لڑائی میں منہ کی کھائی ہے۔
روس پر مغربی ملکوں کی عائد کردہ پابندیوں کے اثرات آذربائیجان پر بھی مرتب ہونے لگے
ایسے میں جب روس کے خلاف مغربی ملکوں کی جانب سے عائد پابندیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، آذربائیجان میں مبصرین کو اس بات پر تشویش لاحق ہے کہ روس کے ساتھ قریبی معاشی تعلقات والے اس ملک کو ممکنہ اثرات جھیلنا پڑیں گے۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ روس کی بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال کے نتیجے میں آذربائیجان کے تجارتی تعلقات اور روس کے ساتھ رقوم کی منتقلی کے معاملات میں مشکل نوعیت کے اثرات مرتب ہوں گے، چونکہ درآمد کے شعبے میں آذربائیجان روس کا کلیدی شراکت دار ہے، جہاں آذربائیجان کے 25 لاکھ تارکین وطن محنت کش موجود ہیں۔
معاشی امور کے ماہر، ناطق جعفری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ روس پر عائد تعزیرات کے آذربائیجان کے بینکاری کےشعبے کے لیے مسائل پیدا ہوں گے جب کہ بین الاقوامی منی ٹرانسفرز کے معاملے میں بھی مشکلات پیدا ہوں گی، کیونکہ آذربائیجان کا روس کے ساتھ علیحدہ سے رقوم کی ترسیل کاکوئی نظام موجود نہیں ہے۔