بائیڈن مودی ورچوئل ملاقات، یوکرین کے معاملے پر بات ہوگی، وائٹ ہاؤس
امریکی صدر جوبائیڈن پیر ہی کے روز بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ورچوئل ملاقات کریں گے، ایسے میں جب وائٹ ہاؤس نے واضح کیا ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ بھارت روس سے توانائی کی درآمدات میں اضافہ کرے۔
بائیڈن نے گزشتہ بار مارچ میں مودی سے بات کی تھی، اور امریکی صدر نے حالیہ دنوں کے دوران کہا ہے کہ چار ملکوں کے گروپ میں بھارت وہ واحد ملک ہے جس نے یوکرین کے خلاف جارحیت کے بعد روس کے خلاف اقدام کرنے میں''کسی حد تک تذبذب سے'' کام لیا ہے۔
جنوبی ایشیا کے اس ملک نے چار ملکوں کے بلاک کے دیگر ارکان امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے برعکس روس اور مغرب کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، جب کہ بھارت نے روس کے خلاف پابندیاں عائد نہیں کیں۔
میدان جنگ سے دھماکہ خیز مواد ہٹانے کا کام، اپنی جان پر کھیلنے کے مترادف
یوکرین کا ایک جری سپاہی اپنے کتے کے ہمراہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر میدان جنگ سے دھماکہ خیز مواد ہٹانے کا کام جاری رکھے ہوئے ہے، ایسے میں جب روس نے یوکرین پر نیا حملہ کیا ہے۔
ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی نے یہ تصویر جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی شک نہیں کہ لڑائی کے میدان سے دھماکہ خیز مواد ہٹانا جان لیوا کام ہے۔
یوکرین کے خلاف روسی جارحیت، اب تک 1842 شہری ہلاک ہو چکے ہیں، عالمی ادارہ
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے یوکرین میں ہلاک و زخمی ہونے والے شہریوں سے متعلق تازہ ترین رپورٹ جاری کرتے ہوئے پیر کے روز کہا ہے کہ یوکرین پر روسی حملے میں اب تک ہلاک و زخمی ہونے والی شہری آبادی کی کل تعداد 4335 ہے، جن میں سے 1842 ہلاک جب کہ 2493 زخمی ہوئے ہیں۔
ایک بیان میں عالمی ادارے کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر نے خبردار کیا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
روس نے یوکرین میں نیا کمانڈر تعینات کردیا
یوکرین میں پیش قدمی کرنے میں ناکامی کے بعد روس نے مشرقی یوکرین پر حملہ جاری رکھنے کے لیے ایک نئے کمانڈر کو تعینات کیا ہے، جس کے بارے میں امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس کمانڈر کا شام اور دیگر جنگوں میں شہری آبادی کی ہلاکتوں سے متعلق بربریت کا بہت خراب ریکارڈ ہے۔
امریکی حکام نے اس نئے روسی کمانڈر کی شناخت، جنرل الیگزینڈر ڈورنیکوف کے طور پر کی ہے، جو روس کے تجربہ کار ترین عہد دار بتائے جاتے ہیں۔
جنرل الیگزینڈر ڈورنیکوف کو 2015ء میں شام بھیجا گیا تھا تاکہ شامی صدر بشار الاسد کی ناکام ہوتی ہوئی افواج کو سہارا دیا جا سکے۔
انھوں نے وہاں سال بھر روسی فوج کی قیادت کی۔ شام میں کردار ادا کرنے پر انھیں روسی وفاق کا ہیرو قرار دیا گیا تھا۔
اس وقت تک وہ روس کے جنوبی خطے کے کمانڈر رہے ہیں۔
لیکن شام میں ان کی کمان میں روس کی فوج پر الزام لگایا جاتا رہا تھا کہ انھوں نے ان باغیوں کے خلاف کارروائی کی جو الاسد کو نکال باہر کرنے کی جستجو کر رہے تھے، جس کے لیے انھوں نے سویلین مضافات اور اسپتالوں پر بم حملے جاری رکھے۔
'سیرئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے سربراہ، رمی عبدالرحمٰن، جو ادارہ برطانیہ سے لڑائی کی نگرانی کرتا ہے، نے 'نیویارک ٹائمز' کو بتایا تھا کہ ''شام میں شہریوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار صرف بشار الاسد کو قرار نہیں دیا جا سکتا، بلکہ روسی جنرل کو بھی برابر کا ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔ بطور ملٹری کارروائیوں کے کمانڈر ان کا نام شہری آبادیوں پر حملوں کے احکامات جاری کرنے والے کے طور پر سامنے آتا ہے''۔
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے 'سی این این' کے پروگرام 'اسٹیٹ آف دی یونین' کو بتایا کہ ڈورنیکوف کے ہوتے ہوئے یوکرین میں اُنہی نتائج کی توقع کی جا رہی ہے۔
تاہم، سلیوان نے کہا کہ ''ببیشک آپ کسی بھی جنرل کو تعینات کر لیں، آپ اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ یوکرین میں روس کو حکمتِ عملی کی نوعیت کی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے''، کیونکہ وہ تیزی کے ساتھ پیش قدمی کرنے اور صدر ولودیمیر زیلنسکی کو ہٹانے کے 24 فروری کے اپنے منصوبے میں کامیاب نہیں ہو سکا''۔