پاکستان کے شہر لاہور کی عالمی پہچان یہاں کے تاریخی مقامات اور ثقافت ہے۔ اندرون لاہور کے علاوہ بھی لاہور کے کئی پرانے علاقے ایسے ہیں جو سینکڑوں برس پرانی تاریخ سموئے ہوئے ہیں۔ ایسا ہی ایک علاقہ مغل پورہ بھی ہے جہاں قیامِ پاکستان سے قبل ہندوؤں اور سکھوں کی اکثریت آباد تھی جب کہ مورخین کے مطابق یہاں برصغیر میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے مغل خاندان کے اشرافیہ بھی آباد تھے۔ دیکھیے یہ پکچر گیلری۔۔
مغل پورہ، لاہور میں مغل دور کی اشرافیہ کا مسکن

9
مغل پورہ کے قریب جی ٹی روڈ پر بیگم پورہ کی آبادی کی طرف جائیں تو ایک گلی میں سرو والا مقبرہ بھی محکمۂ آثار قدیمہ کی محفوظ فہرست میں شامل ہے۔

10
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقبرہ مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا کے عہد کے گورنر لاہور نواب ذکریا کی بہن شرف النسا بیگم کا ہے۔ 1735 سے 1740 کے درمیان تعمیر ہونے والا یہ مقبرہ مغلیہ عہد کی آخری تعمیرات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

11
کہتے ہیں کہ شرف النسا بیگم نماز اور قرآن کی تلاوت کے لیے یہاں تشریف لاتیں اور پردے کا خاص خیال رکھتے ہوئے اُنہوں نے یہ 22 فٹ بلند مقبرہ اپنی زندگی میں ہی تعمیر کروایا تھا جہاں سیڑھیاں رکھ کر ہی جایا جا سکتا تھا۔

12
انتقال کے بعد اُن کے زیر استعمال قرآن اور تلوار بھی اسی مقبرے کی بالائی منزل میں محفوظ کر دیے گئے۔ بعض تاریخ دانوں کے مطابق بیگم شرف النسا کی وصیت کے مطابق اُن کی قبر تک رسائی کے لیے سیڑھیاں نہیں بنائی گئیں تاکہ اُن کی قبر کوئی غیر محرم نہ دیکھ سکے۔